بسم الله الرحـــمن الرحــــیم
لَعَنَهُ اللَّهُ ۘ وَقَالَ لَأَتَّخِذَنَّ مِنْ عِبَادِكَ نَصِيبًا مَفْرُوضًا. النِّسَآء(۱۱۸)
جس پر خدا کی لعنت ہے اور اس نے خدا سے بھی کہہ دیا کہ میں تیرے بندوں میں سے ایک مقرر حصّہ ضرور لے لوں گا۔
موضوع:
شیطان کا گمراہی کا منصوبہ اور انسان کی آزمائش
پس منظر:
یہ آیت جو شیطان کے کردار اور اس کی سرکشی کے بارے میں وضاحت کرتی ہے۔ یہ اس وقت کی طرف اشارہ کرتی ہے جب ابلیس نے آدم (ع) کو سجدہ نہ کرنے کے بعد اللہ سے مہلت مانگی اور عہد کیا کہ وہ انسانوں کو گمراہ کرے گا۔
تفسیر:
1. لعنت کا مفہوم: اس آیت میں "لَعَنَهُ اللَّهُ" کہہ کر واضح کیا گیا کہ اللہ نے شیطان کو اپنی رحمت سے دور کر دیا۔ لعنت کا مطلب صرف بددعا نہیں بلکہ خدا کی رحمت سے محرومی ہے۔
2. شیطان کا منصوبہ: شیطان نے قسم کھا کر کہا کہ وہ اللہ کے بندوں میں سے ایک مقررہ حصہ ضرور لے گا، یعنی وہ انسانوں کی ایک جماعت کو گمراہ کر کے اپنی راہ پر لگائے گا۔ اس میں یہ اشارہ بھی ہے کہ کچھ لوگ شیطان کے پیروکار بن کر رہیں گے۔
3. نصیبًا مفروضًا: یہاں "مقررہ حصہ" کا ذکر ہے، جس سے مراد وہ لوگ ہیں جو خود اپنی خواہشات اور شیطان کے وسوسوں میں پھنس کر راہِ ہدایت سے بھٹک جائیں گے۔ یہ شیطان کا ایک خطرناک دعویٰ ہے جو اس کی مکاری اور ضد کو ظاہر کرتا ہے۔
اہم نکات:
1. شیطان اللہ کی لعنت کا مستحق ہے کیونکہ اس نے نافرمانی اور تکبر کیا۔
2. وہ انسانوں میں سے ایک گروہ کو اپنے راستے پر ڈالنے کے لیے ہمیشہ کوشش کرتا رہے گا۔
3. ہر انسان کو شیطان کے وسوسوں سے بچنے اور اللہ کی طرف رجوع کرنے کی ضرورت ہے۔
4. یہ آیت اس بات کا ثبوت ہے کہ شیطان کے پیروکار ہمیشہ سے موجود رہے ہیں اور قیامت تک رہیں گے۔
5. اللہ کی رحمت اور ہدایت کو اختیار کرنا ہی شیطان کے چنگل سے بچنے کا ذریعہ ہے۔
نتیجہ:
یہ آیت ہمیں متنبہ کرتی ہے کہ شیطان ہمیشہ انسان کو گمراہ کرنے کے درپے ہے، اور اس کی راہ پر چلنے والے لوگ اللہ کی رحمت سے دور ہو سکتے ہیں۔ اس سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم قرآن اور اہل بیت (ع) کی تعلیمات پر عمل کریں تاکہ شیطان کے چالاکیوں سے محفوظ رہیں۔
•┈┈•┈┈•⊰✿✿⊱•┈┈•┈┈•
تفسیر سورہ النساء
آپ کا تبصرہ